تراویح کا بیان | حدیث | تراویح کے مسائل | سوال جواب | نبی کریم ﷺ

تراویح کا بیان

(1)
 حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے مہینہ میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اسکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔
(صحیح بخاری کتاب التراویح حدیث 2008صفحہ525)

(2) 
حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن الخطاب(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رمضان کے مہینہ میں ایک رات مسجد کی طرف گیا تو لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز پڑھ رہے تھے ایک شخص الگ نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ لوگ کسی اورکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے توحضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا میری رائے یہ ہے کہ میں ان سب کو اگر ایک قاری (امام) کی اقتدا میں جمع کردوں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔ پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے پختہ ارادہ کر لیا اور ان کو حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کی اقتدا میں جمع کردیا پھر جب میںدوسری رات کو ان کے ساتھ گیاتو سب لوگ اپنے قاری ( حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ )کی اقتداءمیں نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے کہا : (یعنی یہ اچھی بدعت ہے ) ۔ 
  (صحیح بخاری کتاب التراویح حدیث 2010صفحہ527)

قارئین کرام ! حدیث پاک سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے حضرت علامہ عینی (رحمتہ اللہ علیہ )اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر وہ کام شرعاً نیک ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ کام شرعاً 
بُرا ہوتو وہ بدعتِ قبیحہ
 بُری ہے ۔ 
 (عمدة القاری جلد11صفحہ178نعمة الباری شرح بخاری جلد4صفحہ528)

 اس لیے ہر بدعت کو گمراہی قرار دینا درست نہیں ہے اور جس حدیث پاک میں یہ فرمایا گیا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ( لے جانیوالی ) ہے ۔ 
(سنن ابو داﺅد جلد 3 حدیث 1199 صفحہ 440 )

 اس سے مراد وہ بُری بدعت ہے جو کسی سنت کے خلاف یا کسی سنت کو مٹانے والی ہو ۔ 

(3) 
حضرت نصر بن شیبان (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں حضر ت ابو مسلمہ بن عبدالرحمن سے ملا تو انہوں نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے رمضان شریف کاذکر کیا اور کہا : یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیے ہیں اور میں نے ا س کے قیام (یعنی تراویح) کو تمہارے لیے مسنون قرار دیا ہے جس نے اس کے روزے رکھے اورایمان و ثواب کے ارادہ سے اس کی راتوں میں قیام کیا تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ 
 (سنن ابن ماجہ جلد1حدیث1317صفحہ 414)

تراویح کے مسائل

(1) 
تراویح مرد وعورت سب کے لیے بالا جماع سنت موکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں اس پر خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) نے مداومت (ہمیشگی ) فرمائی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری سنت اورمیرے خلفائے راشدین(رضی اللہ عنہم) کی سنت کو اپنے اوپر لا زم سمجھو ۔
      (ترمذی شریف جلد2حدیث573صفحہ339)

اور خود نبی کریم ﷺنے بھی نمازِتراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایاہے لیکن اس پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمت پر تراویح فرض نہ کردی جائے ۔ 
(2)
 تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ)کے عہد مبارک میںبھی تراویح بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں جیساکہ احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے۔
 (i) 
حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔
(مصنف ابی شیبہ جلد2حدیث7692صفحہ 164)
(ii)
حضرت یزید بن رومان (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : حضرت عمر بن خطاب(رضی اللہ عنہ) کے دور میں لوگ رمضان المبارک میں (بشمول وتر ) 23رکعت پڑھتے تھے ۔ 
  ( موطا امام مالک کتاب الصلوٰة فی رمضان حدیث 5باب 2صفحہ150)
(iii) 
حضرت امام ابو عیسٰی ترمذی (رضی اللہ عنہ)نے اپنی سنن میں فرمایا : اکثر اہل علم کا مذہب بیس رکعت تراویح ہے جو کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)اور حضور اکرم ﷺ کے دیگر اصحاب سے مروی ہے اور یہی (کبار تابعین ) سفیان ثوری(رحمتہ اللہ علیہ ) عبداللہ بن مبارک(رحمتہ اللہ علیہ ) ،امام شافعی (رحمتہ اللہ علیہ )اور امام ابو حنیفہ (رحمتہ اللہ علیہ ) کاقول ہے اور امام شافعی (رحمتہ اللہ علیہ )فرماتے ہیں میں نے اسی طرح اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو بیس رکعت (تراویح ) پڑھتے ہو ئے پایا ہے ۔ 
(ترمذی شریف جلد1حدیث785صفحہ431)
(iv ) 
حضرت ابو عبدالرحمن سلمی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان المبارک میں قاریوں کوبلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خو د حضرت علی(رضی اللہ عنہ)انہیں وتر پڑھاتے تھے ۔
  (السنن الکبریٰ جلد2حدیث4396صفحہ496)
(v)
 حضرت عبدالعزیز بن رفیع (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ)مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے ۔ 
   (مصنف ابی شیبہ جلد2 حدیث 7685 صفحہ 163)
(3) 
تراویح کی جماعت سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑدی تو سب گناہ کے مرتکب ہوئے اور اگر چند افراد نے باجماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا ۔ 
(4) 
تراویح کا وقت عشاءکے فرض پڑھنے کے بعد سے صبح صادق تک ہے عشاءکے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو ادا نہ ہوگی ۔ 
(5) 
عشاءکے فرض و وتر کے بعد تراویح پڑھی جاسکتی ہے ۔ (جیسا کہ بعض اوقات 29کی رویت ہلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہوتا ہے ) ۔ 
(ملخصاًفتاویٰ عالمگیری جلد1صفحہ345۔بہار شریعت جلد1صفحہ688۔ قانون شریعت صفحہ133)


روزے کا بیان | حدیث | روزے کے مسائل | سوال جواب | نبی کریم ﷺ

روزے کا بیان 

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے


اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں (یعنی تم سے پہلے لوگوں ) پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہوتو اسکے(یعنی رمضان کے) روزے اور دنوں میں(رکھے) اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ میں ایک مسکین کا کھانا(بطورِ فدیہ دےں)پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ 
            (پارہ 2سورہ بقرہ آیت 184,183)

رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو ۔       (پارہ 2سورہ بقرہ، آیت175

روزے کے متعلق احادیث مبارکہ

(1)
 حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : روزہ (جہنم کی آگ سے ) ڈھال ہے ۔ پس کوئی شخص(روزے میں ) فُحش بات کرے نہ جہالت کی بات کرے اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یااس کو گالی دے تواس کو دو مرتبہ کہنا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری ( محمد ﷺ )کی جان ہے ۔ روزہ دار کے منہ کی بوُ ضرور اللہ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بہتر ہے، وہ اپنے کھانے اور پینے کو اور اپنے نفس کے تقاضوں کو میری وجہ سے ترک کر تا ہے روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزادوں گا اور نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے ۔
   (صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث 1896 صفحہ 365) 

(2) 
حضرت سہل (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے اس دروازہ سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا کوئی اور داخل نہیں ہوگا کہا جائے گا، روزہ رکھنے والے کہاں ہیں پھر روزہ دار کھڑے ہوں گے اس دروازہ سے ان کے علاوہ اور کوئی داخل نہیں ہوگا پھر جب وہ داخل ہوجائیں گے تو اس دروازہ کو بند کردیا جائے گا اور پھر اس سے کوئی داخل نہیں ہوگا ۔
   (صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث1896صفحہ374)

(3) 
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے شب ِقدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو ا سکے پہلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پہلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ 
(صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث 1901 صفحہ383)

(4)
 حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
 فرمایا :جس نے (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے اور پینے کے چھوڑدینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب الصوم حدیث 1903صفحہ384)

(5) 
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص (روزے میں ) بھول کر کھالے اور پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے (کیونکہ) اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔ 
 (صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث 1933صفحہ426)

(6) 
حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے سرکار دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایا : سحری کھایا کرو سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے ۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام حدیث 2445 صفحہ81)

(7)
 حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کی راہ میں روزہ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو اس کے چہرے سے ستر سال کی مسافت تک دور کردے گا ۔ 
(صحیح مسلم ، کتاب الصیام حدیث 2607 صفحہ147)

(8)
حضر ت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے نبی ا کرم ﷺ نے ارشاد فر مایا :جس نے بغیر شرعی اجاز ت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا ( یا چھوڑ دیا ) تو اسے عمر بھر کے روزے بھی کفایت نہیں کر سکتے ۔ 
( سنن تر مذی جلد 1حدیث 701 صفحہ 395) 

(9)
 حضر ت ابو امامہ(رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ میں نے رسول ﷺ کی خد مت میں عر ض کیا کو نسا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے اوپر روزہ لازم کر لو۔ کیونکہ کوئی دوسرا عمل اس کے برابر نہیں ہے ۔
 (سنن نسائی کتاب الصیا م جلد 2 حدیث2 222 صفحہ 57) 

(10)
حضرت جابر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : سید عالم ﷺنے ارشاد فرمایا : ہر روزہ دار افطار کرنے پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جہنم سے آزادی پانے والے ہیں اور یہ اعلان ہر رات ہوتا ہے ۔  
 (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام جلد 1حدیث 1632 صفحہ 514)

(11) 
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہرچیز کی زکوٰة ہے اور جسم کی زکوٰة روزہ ہے اور روزہ نصف صبر ہے 
 (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام جلد1، حدیث 1734 صفحہ 541)

(12)
 حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے: نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر اُسے سونا دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا ۔ اس کاثواب تو قیامت کے ہی دن ملے گا ۔ 
(مسند ابی یعلی جلد 5حدیث6104صفحہ353) 

(13) 
حضر ت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : سرکاردوعالم ﷺے ارشاد فرمایا : اگر بندوں کو معلوم ہو تاکہ رمضان کیا چیز ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو ۔
 (صحیح ابن خزیمة ، کتاب الصیام جلد2 حدیث1886 صفحہ636)

(14)
حضرت سیدنا ضمرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ماہ رمضان میں گھر والوں کے خرچ میں کشادگی کرو کیونکہ ماہ رمضان میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے ۔ 
 (الجامع الصغیر حدیث2716 صفحہ162)

(15)
 حضرت کعب بن عجرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا سب لوگ منبر کے پاس حاضر ہوں ہم حاضر ہوئے جب آپ ﷺ منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے کہا : آمین دوسرے پر چڑھے کہا :آمین ، تیسر ے پر چڑھے کہا : آمین جب منبر سے تشریف لائے تو ہم نے عرض کی آج ہم نے آپ ﷺسے ایسی بات سنی کہ کبھی نہ سنتے تھے فرمایا: جبرئیل (علیہ السلام)نے آکر عرض کی وہ شخص دور ہو جس نے رمضان پایا اور مغفر ت نہ کرائی میں نے کہا (آمین ) جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو کہا وہ شخص دور ہو جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔ میں نے کہا : آمین ۔ جب تیسرے درجہ پر چڑھا کہا وہ شخص دور ہو جس کے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھا پا آئے اوروہ انکی خدمت کر کے جنت میں نہ جائے ۔ میں نے کہا: آمین 
 (المستدرک جلد 5، حدیث 7338 صفحہ212)

(16)
 حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے سرکارد وعالم ﷺ نے
 ارشادفرمایا : روزہ اور قرآن بندے کے لیے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے رب(عزوجل) میں نے کھانے اور خواہشوں سے دن میں اسے روک دیا میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما قرآن کہے گاا ے رب (عزوجل)میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما تو دونوں شفاعتیں قبول ہوںگی۔
      (المسند امام احمد بن حنبل جلد 2حدیث6637 صفحہ586)

روزے کے مسائل

سوال 1: بغیر سحری کے روزہ رکھنا کیسا ؟

جواب : بغیر سحری کے روزہ رکھنا جائز ہے روزہ ہوجاتا ہے کیونکہ روزے کیلئے سحری کرنا شرط نہیں ہے اسی طرح کسی کی آنکھ سحری میں نہ کُھلی اور وقت گزر گیا تو بغیر سحری کے روزہ رکھ سکتا ہے ۔ روزہ ہوجائے گا مگر مستحب یہ ہے کہ سحری کھا کرروزہ رکھے کہ حدیث ِپاک میں اسکی بہت فضیلتیں آئی ہیں ۔

 (1)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ (عزوجل) اور اُسکے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔
           (صحیح ابن حبان جلد 5 حدیث 3458صفحہ194)

(2) 
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : سحری پوری کی پوری برکت ہے پس تم اسے نہ چھوڑ و چاہے یہی ہو کہ تم پانی کاایک گھونٹ پی لو ، بیشک اللہ (عزوجل) اور اسکے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں سحری کرنے والوں پر ۔
  (مسند امام احمدبن حنبل جلد 4 حدیث 11396صفحہ88)

(3) 
نبی کریمﷺنے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
      (صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث 1923 صفحہ411)

سوال 2: روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیسا ؟

جواب : روزے کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے بلکہ ہرو ضو کے ساتھ مسواک کرنا سنت اور باعث ِ جزا (ثواب ) ہے لیکن اگر مسواک چبانے سے ریشے چھوٹیں یا مزہ (حلق میں ) محسوس ہوتو ایسی مسواک روزے میں نہیں کرنی چاہیے برش کا حکم بھی مسواک ہی کی طرح ہے البتہ اس بات کی احتیاط کریں کہ ٹوتھ پیسٹ کے ذرات حلق میںنہ جائیں اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے وقت مسواک نہیں کرنی چاہیے کہ مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے ۔
   (فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ511۔بہار شریعت جلد 1صفحہ997)

سوال 3: کن ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے ؟

جواب : عیدالفطر ، عیدالاضحی اور 11،12،13ذی الحج کے دن روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری جلد 2صفحہ10۔فتاویٰ فقیہ ملت جلد 1صفحہ342۔
بہار شریعت جلد 1صفحہ967)

سوال 4: مُشّت زنی (یعنی اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر غسل واجب کرلینا ) کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟

جواب : مُشّت زنی کے سبب اگر منی اپنی جگہ سے شہوت کیساتھ جدا ہو کر عضو سے نکلی تو غسل واجب ہوجائے گا اور روزہ کی حالت میں روزہ یاد ہوتے ہوئے یہ کام کیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا اور یہ نہایت برُا فعل ہے حدیث پاک میںایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے لہٰذا اس سے تو بہ کرنا لازم ہے۔
 (فتاویٰ عالمگیری جلد2 صفحہ23۔فتاویٰ فیض الرسول جلد 1صفحہ168۔ بہار شریعت جلد 1صفحہ989)

سوال 5: روزے کی حالت میں جھوٹ ، غیبت ، چغلی کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ 

جواب : جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، گالی دینا ، بیہودہ بات کرنا ، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں اور روزہ کی حالت میں تو اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ میں کراہت آتی ہے اور روزے کی نورانیت چلی جاتی ہے احادیث مبارکہ میں بھی اسکے متعلق وعیدیں آئی ہیں ۔ 

(1)
 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا اور جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑدیا ہے ۔  
      (صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث 1903صفحہ 384)


(2) 

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بہت سے روزہ دارایسے ہیں کہ انہیں روزہ سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہو تا اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ انہیںجاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 1حدیث 1679صفحہ526)
(3)
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : روزہ صرف کھانے پینے سے رُکنے کا نام نہیں ہے بلکہ لغو(فضول ) اور بےہودہ باتوں سے بچنا ، اصل روزہ ہے اوراگر تمہیں کوئی گالی دے اور بُرا بھلا کہے تو تم آگے سے صرف اتنا کہہ دو کہ میں روزے دار ہوں۔ 
( المستدرک جلد2حدیث1570صفحہ99)
(4) 
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : روزہ سیرہے جب تک اسے پھاڑا نہ ہو عرض کی گئی کس چیز سے پھاڑا جائے گا،ارشاد فرمایا : جھوٹ یا غیبت سے۔  
 (المعجم الاوسط جلد 3 حدیث4536صفحہ264) 
(5)
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو وہ بے حیائی کی باتیں نہ کرے ، نہ جہالت کا اظہار کرے اور نہ شور کر ے اور کوئی شخص اسکو گالی دے یا اس سے لڑے تو اسے چاہیے کہ اُسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں 
(سنن ابن ماجہ جلد 1حدیث1680ص 526) 
اس لیے ہمیں روزے کی حالت میں بھی اور اس کے علاوہ بھی گناہوں سے بچنا چاہیے ۔ 

سوال 6: اگر روزہ کی حالت میں منہ میں مکھی چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟

جواب :روزے کی حالت میں اگر مکھی منہ میں چلی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن اگر قصدا ً (جان بوجھ کر)نگلی توروزہ جاتا رہے گا ۔  
    (بہار شریعت جلد 1صفحہ983) 

سوال 7: اگر روزہ کے دوران کٹھی ڈکاریں آئیں تو اس سے روزہ پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں ؟

جواب : روزے کے دوران کٹھی ڈکاریں آنے سے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ 
(فتاویٰ رضویہ جلد10، صفحہ486)

 سوال 8: دھواں اور گردوغبار کے حلق میں چلے جانے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں ؟ 

جواب : دھواں یا گردوغبار کے حلق میں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگرجان بوجھ کر حلق میں پہنچایا (مثلاً اگربتی جل رہی تھی اور اس کی طرف منہ کرکے دھوئیں کو ناک سے کھینچا تو اب روز ہ جاتارہے گا(۔
 (فتاویٰ رضویہ جلد 10صفحہ492۔بہار شریعت جلد 1صفحہ982)

سوال 9: وضو یا غسل کرنے کے بعد کچھ تری منہ میں رہ جاتی ہے اسے نگلنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟

جواب : وضو یا غسل میں کلی کرنے کے بعد منہ میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے اسکو نگل لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 
  ( بہار شریعت جلد 1صفحہ 982۔فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ496)

سوال 10:روزے کی حالت میں انجکشن لگواناکیسا ؟

جواب : روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے کے متعلق علمائے کرام کی دو رائے ہیں بعض کے نزدیک روزہ ٹوٹ جائے گا اور بعض کے نزدیک نہیں ٹوٹے گا اس لیے اگر شدید حاجت ہوتو روزے کی حالت میں انجکشن لگوالیا جائے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ 
(فتاویٰ فیض الرسول جلد1صفحہ516۔فتاویٰ مصطفویہ صفحہ10۔
روزے کے جدیدمسائل صفحہ22۔فتاویٰ بریلی شریف صفحہ359) 
اور اگر شدید حاجت نہ ہو تو روزے کی حالت میں انجکشن نہ لگوایا جائے کہ بچنا بہتر ہے ۔ 

سوال 11: روزے کی حالت میں خواتین کا میک اپ کرنا ، لپ اسٹک لگانا ، ہیر کٹنگ کرانا کیسا ہے ؟

جواب : روزے کی حالت میں خواتین کا میک اپ کرنا جائز ہے بشرطیکہ غیر محرم مردوں کے سامنے بے پردگی اور نمودو نمائش مقصود نہ ہو ، اور لپ اسٹک لگانا جائز ہے بشرطیکہ اس کے اجزاءترکیبی میں کوئی ناپاک چیز شامل نہ ہوا ور اگر لپ اسٹک واٹرپروف ہے اور اس کے لگے رہنے کی وجہ سے ہونٹوں کی جلد وضو کے دوران پانی سے تر نہیں ہوتی تو وضو مکمل طور پر ادا نہیں ہوگا ۔ اور ایسے نا تمام وضو سے نماز صحیح ادا نہیں ہوگی اور جو چیز کسی شرعی فرض کی صحتِ ادا میں مانع (رکاوٹ) بن جائے وہ جائز نہیں ہے ۔ ہیئرکٹنگ اگر معمولی مقدار میں ہو مثلاً لمبائی میں بالوں کو برابر رکھنا ہو تو اس حد تک جائز اور اگر اتنی مقدار ہو جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت پیدا ہو تو ناجائز ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے : حضرت ابن عباس
( رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے : نبی کریم ﷺنے مردوں کی مشابہت اختیارکرنے والی عورتوں اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
 (سنن ابو داﺅد جلد 3حدیث 697، صفحہ242)( تفہیم المسائل جلد1صفحہ190)

سوال12: روزے کی حالت میں کسی ضرورت مند مریض کو خون دینا کیسا ؟

جواب : روزے کی حالت میں ضرورت مند مریض کو خون دینا یا اپنے کسی ٹیسٹ کیلئے خون دینا جائز ہے اس سے روز ہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ حدیث ِپاک میں ہے کہ بدن میں کوئی چیز جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے نہ کہ خارج ہونے سے۔ البتہ اتنازیادہ خون نہ نکالا جائے کہ روزہ پورا کرنے کی استطاعت باقی نہ رہے ۔ 
 (تفہیم المسائل جلد 2صفحہ 194۔روزے کے مسائل صفحہ21)

سوال13: اگرروزے کی حالت میں دانتوں سے خون نکل آئے تو روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں ؟

جواب : روزے کی حالت میں دانتوں سے خون نکلا اور حلق سے نیچے نہ اُترا تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ 
  (الدرالمختار جلد 3صفحہ421۔بہار شریعت جلد 1صفحہ 983)

سوال 14:روزے کی حالت میں انہیلر کا استعمال کرنا کیسا ؟

جواب :روزے کی حالت میں انہیلر استعمال کرنا جائز نہیںاگر استعمال کیا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔   
(تفہیم المسائل جلد 2، صفحہ190۔فتاویٰ بریلی شریف صفحہ360۔روزے کے جدید مسائل صفحہ33)

سوال 15: اگر روزے کی حالت میں آنسو کے قطرات منہ میں چلے جائیں تو روزے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب : روزے کی حالت میں آنسو کے ایک یا دوقطرات منہ میں چلے گئے اور حلق سے نیچے اُتر گئے تو اس سے روزہ نہیںٹوٹے گا لیکن اگر زیادہ قطرات منہ میں چلے جائیں کہ ان کی نمکینی پورے منہ میں محسوس ہو تو روزہ فاسد ہوجائے گا پسینہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ 
(فتاویٰ عالمگیری جلد 2صفحہ21۔ بہار شریعت جلد 1صفحہ988)

سوال 16: روزے کی حالت میں خوشبو سونگھنا اور اسے کپڑوں پر لگانااور بال و ناخن کٹوانا کیسا اور ان میں تیل لگانا کیسا ؟

جواب : روزے کی حالت میں خوشبو سونگھنا اور اِسے کپڑوں پر لگاناجائز ہے اسی طرح روزے کی حالت میں ناخن اور بال بھی کٹواسکتے ہیں اور بالوں کوتیل بھی لگاسکتے ہیں ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 10صفحہ511۔فتاویٰ بریلی صفحہ358۔تفہیم المسائل جلد 2صفحہ188)

سوال 17: اگر کوئی شخص اس وقت اٹھے کہ سحری کا وقت بہت کم رہ گیا ہو اور غسل بھی واجب ہوتو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟ 

جواب : اس صورت میں ہاتھ دھو کر کلی کر لیں اور ناک میں پانی چڑھا لیں پھر سحری کرلیں اور سحری کرنے کے بعد سہولت کے مطابق غسل کر لیں اس سے روزے پر کو ئی فرق نہیں پڑیگا ۔ البتہ غسل جنابت میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ ایک فرض نماز کا وقت نکل جائے ۔
 (تفہیم المسائل جلد1صفحہ188۔روزے کے جدید مسائل صفحہ48)

سوال 18: اگر روزہ دار کے جسم میں کہیں زخم ہو اور اس میں سے خون یا پیپ وغیرہ نکل جائے تو اس سے روزے پر اثر پڑے گا یا نہیں ؟

جواب : جسم سے خون یا پیپ نکلنے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ (فتاویٰ بریلی صفحہ312)

سوال 19: افطاری کی مسنون دعاروزہ کھولنے سے پہلے پڑھنی چاہیے یا روزہ کھولنے کے بعد پڑھنی چاہیے ؟ 

جواب : افطاری کی مسنون دعا روزہ کھولنے کے بعد پڑھنی چاہیے، اس لیے افطاری کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھی جائے اور افطاری کے بعد یہ مسنون دعا پڑھ لی جائے : حدیث پاک میں ہے : جب نبی کریم ﷺافطاری فرمالیتے تو یہ دعا پڑھتے :اَللّٰھُمَّ لَکَ صُم ±تُ وَ عَلٰی رِز ±قِکَ اَف ±طَر ±تُ :    (سنن ابوداﺅد جلد 2، حدیث 586، صفحہ229)
(فتاویٰ رضویہ جلد 10، صفحہ633۔فتاویٰ فیض الرسول جلد 1صفحہ516)

سوال 20: اگر روزے کی حالت میں قے آجائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گایا نہیں؟

جواب : روزے کی حالت میں اگر خود بخود قے آجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے قے منہ بھر ہو یا نہ ہو ، ہاں اگر جان بوجھ کر روزہ یاد ہوتے ہوئے قے کی اور قے منہ بھر ہے (یعنی اسے بلا تکلف نہ روکا جاسکے ) تو اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا جبکہ قے میں کھانا یا پانی یا صفرا (یعنی کڑوا پانی ) یا خون آئے اگر قے میں صرف بلغم نکلا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ قے منہ بھرہی کیوں نہ ہو، روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ خلاصہ یہ کہ اگر قے میں یہ تین شرائط پائی جائیں تو روزہ ٹوٹے گا (i) جان بوجھ کر قے کرنا(ii) اور قے کامنہ بھرہونا(iii) اس میں کھانا اورصفرا کا نکلنا۔ اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی کم ہوئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
(فتاویٰ عالمگیری جلد 2صفحہ21۔ وقار الفتاویٰ جلد 2صفحہ429۔ بہار شریعت جلد 1صفحہ988)

سوال 21: روزے کی حالت میں کسی چیز کا چکھنا کیسا ؟

جواب : روزہ دار کا بلاعذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے چکھنے کیلئے عذر یہ ہے کہ مثلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ نمک کم و بیش ہوگا تو اسکی ناراضگی کا باعث ہوگا اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں چبانے کیلئے عذریہ ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جائے نہ حیض و نفاس والی یا کوئی اور بے روزہ عورت ہے جو اُسے چبا کر دےدے ، توبچہ کے کھلانے کیلئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں اور یاد رکھیں کہ چکھنے کہ وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ ہے یعنی کسی چیز کا مزہ دریافت کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑاسا کھالینا کہ یوں تو کراہیت کیسی، روزہ ہی جاتا رہے گا بلکہ کفارہ کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا بلکہ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ دریافت کرلیں اور اسے تھوک دیںاور اس میں سے حلق میں کچھ نہ جانے پائے ۔ 
(الدر المختار جلد 3صفحہ453۔ بہار شریعت جلد 1صفحہ996۔ فتاویٰ رضویہ جلد 10، صفحہ501)

سوال 22: روزے کی حالت میں وضو یا غسل کرتے ہوئے غرغرہ کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟

جواب : روز ے دار کو وضو یاغسل کرتے ہوئے غرغرہ کرنا مکروہ ہے اس لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں پانی کے حلق سے نیچے اترجانے کا امکان ہوتا ہے ۔ غیر روزہ دار کیلئے غرغرہ کرنا سنت ہے ۔     
(فتاویٰ رضویہ جلد 1، صفحہ 594)

سوال 23: اگر کسی شخص کے اوپر کافی روزوں کی قضا ہو اور وہ روزے رکھنے کی بجائے اس کا فدیہ اداکردے تووہ بری الذمہ ہو جائے گا یا نہیں جبکہ اس کے اندر روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو ؟

جواب : جب تک اس شخص کے اندر روزہ رکھنے کی طاقت ہوتو وہ فدیہ ادا کرنے سے ہر گزبری الذمہ نہیں ہوگا اس پر تمام روزوں کی قضا فرض ہے ۔
 (فتاویٰ امجدیہ جلد 1صفحہ396۔ فتاویٰ فقیہ ملت جلد 1صفحہ341)

سوال 24: رمضان المبارک میں اگر کوئی شخص روزہ جان بوجھ کر توڑدے تو اس کا کیا کفارہ ہے ؟ 

جواب : جان بوجھ کر روزہ توڑدینے کی صورت میں کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے
 ( اب اس کا دور نہیں ہے ) اگر غلام نہ ہوتومسلسل 61روزے رکھے مسلسل بغیر وقفہ کے (یعنی 60روزے کفارے کے اور ایک روزہ قضا کا ) رکھے ۔ اگر درمیان میں ایک دن بھی وقفہ پڑگیا تو پھر دوبارہ دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے کیونکہ پہلے کے روزے حساب میں شامل نہیں ہوں گے ، اگر اس شخص میںروزے رکھنے کی طاقت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائے ۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد 1صفحہ333۔بہارشریعت جلد 1صفحہ994۔ انوار الفتاویٰ جلد 1صفحہ264)

نوٹ : جس جگہ روزہ توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے اس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی سے رمضان کے روزے کی نیت کی ہو ۔ اگر دن میں نیت کی اور توڑدیا تو کفارہ لازم نہیں صرف قضاءکافی ہے ۔
  (بہار شریعت جلد 1صفحہ99)

سوال 25: وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بناءپر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ؟

جواب :مسافرپر، حاملہ اور د ودھ پلانے والی خواتین کو روزہ مُعاف ہے حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف فرمادی (یعنی چارکعت والی فرض نماز دورکعت پڑھے ) اور مسافر اور دودھ پلانے والی اور حاملہ خواتین سے روزہ مُعاف فرمادیا کہ انکو اجازت ہے کہ اس وقت نہ رکھیں بعد میں وہ اپنے روزوں کی مقد ار پوری کرلیں ۔ 
 (ترمذی شریف جلد1حدیث693صفحہ391) 
اگر مریض مرض کے بڑھ جانے یا دیر سے اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہوجانے کا گمان غالب ہوتو ان کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھے ۔
 (بہار شریعت جلد 1صفحہ1003)

سوال 26: دو رحاضر میں بعض صورتوں میں سفر پُر سہولت ہوگیا ہے بطور خاص ائیر کنڈیشنر بس یا ٹرین کی ائیر کنڈیشنر بوگی یا جہاز میں تو کوئی زیادہ مشقت پیش نہیں آتی ، کیاان صورتوں میں بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ؟

جواب : بلا شبہ فی زمانہ بعض صورتوں میں سفر بہت پُرسکون ہوگیاہے مگر اس سکون و آسانی کے باوجود بھی مسافر پرلازم نہیں ہے کہ وہ اس سفر میں روزہ 
رکھے کیونکہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت نصِ قطعی سے ثابت ہے 

اللہ(عزوجل) ارشادفرماتا ہے :

 تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ 
  ( پارہ 2سورة البقرہ آیت 184)

اور حدیث پاک میں ہے حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف فرمادی (یعنی چار رکعت والی فرض نماز دورکعت پڑھے )اور مسافر اوردودھ پلانے والی اور حاملہ سے روزہ معاف فرمادیاہے۔ 
     (ترمذی شریف جلد 1 حدیث693 صفحہ391)

کہ ان کو اجازت ہے کہ اس وقت نہ رکھیں بعد میں وہ مقدار پوری کرلیں  سفر اور حمل اور بچہ کو دودھ پلانا اور مرض اور بڑھاپا اور خوف وہلاک واکراہ و نقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کیلئے عذر ہیں ۔ ان وجوہات کی بنا ءپر اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گنہگار نہیں ، سفرسے مُراد شرعی سفر ہے (یعنی اتنی دور جانے کے ارادے سے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن (تقریباً ساڑھے 92کلو میٹر ) کی مسافت ہواورپندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو: اگرچہ وہ سفر کسی ناجائز کام کیلئے ہو ۔ 
(الدرالمختار جلد 2صفحہ 462 ۔بہار شریعت جلد 1صفحہ1002۔جدید روزے کے مسائل صفحہ50)
بہر حال اگر سفر میں مشقت نہ ہواور آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہو تو روزہ رکھنا بہتر ہے ۔ 

سوال 27: اگر ایک شخص کافی بوڑھا ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ فدیہ دے سکتا ہے ؟

جواب : روزے کے فدیے کے حوالے سے اس کی چند صورتیں ہیں (1) شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہوتا جائے گا ۔ جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ روزے رکھنے کی طاقت آنے کی اُمید ہے تو اس صورت میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ہر روزے کے بد لہ میں (بطورِ فدیہ ) ایک صدقہِ فطر ( یعنی دو کلو پچاس گرام گندم یا آٹا ) کی مقدار یا اسکی رقم مسکین کو دیدے (2) اگر بوڑھا شخص گرمیوں میں روزہ نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر سردیوں میں رکھنا فرض ہے (3) اگر فدیہ دینے کے بعد بوڑھے شخص میں طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صدقہ نفل ہوگیا اور روزوں کی قضا ءکرنا اس کے لیے ضروری ہوگا ۔
(فتاویٰ عالمگیری جلد 2 صفحہ27۔الدرالمختار جلد 3صفحہ481۔بہار شریعت جلد 1صفحہ1006)

سوال28 : کیا سحری کا وقت اذانِ فجر پر ختم ہوتا ہے اورفجر کی اذان تک سحری کرتے رہنا کیسا؟

جواب : سحری کا وقت طلوعِ فجر تک ہوتا ہے اس کے بعد اگر کسی نے کھایا یا پیا تو اس کا روزہ نہیں ہوگا،کیونکہ اذانِ فجر اس وقت دی جاتی ہے جب سحری کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: 
اور کھاتے پیتے رہو ، یہاں تک کہ فجر کا سفید دھاگہ (رات کے ) سیاہ دھاگے سے ممتاز ہوجائے، پھر روزہ کو رات آنے تک پوراکرو۔
    (پارہ 2سورہ بقرہ آیت187)
(آجکل اکثر لوگ اذانوں تک کھا تے پیتے رہتے ہیںیاد رکھیں جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے روزے نہیں ہوتے ، اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اسلامی کیلنڈر حاصل کرے اور اس کے مطابق سحری و افطاری کرے ، بہتر ہے کہ سحری میں جو وقت اسلامی کیلنڈر پر لکھا ہو اس سے پانچ منٹ پہلے سحری بند کردے اور افطاری کا جو وقت کیلنڈر پر لکھا ہو اس سے پانچ منٹ بعد افطاری کرے) 



Islamic Topic: Jashaan-e-Wiladaat and Righteous Predecessors


Centuries ago, such a flower blossomed in the universe whose pure fragrance started transforming the widely spread the foul smell of disbelief, polytheism, oppression, and violence into faith, Islam and peace. That flower’s fragrance is not diminishing with the passage of centuries; rather, it keeps growing further and will keep growing until the Day of Judgement. That matchless flower is none other than our Beloved Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. That is the reason why the scholars, pious people, Muhaddiseen and Mufassireen have been praising highly about the greatness of the time and the month of the blessed birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم in different ways.

As an Imam belonging to around 750 years ago, ‘Allamah Zakariya Bin Muhammad Bin Mahmood Qazveeni رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 682 AH) states:

ھُوَ شَھْرٌ مُّبَارَكٌ فَتَحَ اللّٰەُ فِیْەِ اَبْوَابَ الْخَیْرَاتِ وَ اَبْوَابَ السَّعَادَاتِ عَلَی الْعَلٰمِیْنَ
بِوُجُوْدِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَلَّی اللّٰەُ عَلَیْەِ وَسَلَّم وَالثَّانِی عَشَرَ  مِنْەُ مَوْلِدُ رَسُولِ اللّٰەِ صَلَّی اللّٰەُ عَلَیْەِ وَسَلَّم

i.e. (Rabi’-ul-Awwal) is that sacred month in which Allah Almighty opened the doors of goodness and blessings upon the creation of the entire world through the blessings of the blessed existence of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. The Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was born on the 12th of the same very month. (‘Ajaaib-ul-Makhluqat, pg. 68)

What greatness that moment possesses in which the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was born and it became a moment for the acceptance of Du’as for the Muslims until the Day of Judgement. As, Sayyiduna Shaykh ‘Abdul ‘Azeez Dabbaagh رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه states, ‘The blessed moment in which the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم came in this world is the time for the acceptance of Du’as. The attribute of acceptance of this moment will remain until the Day of Judgement. At that moment, all Ghaus, Qutb and other Awliya of the entire world gather near the cave of Hira. The one whose Du’a corresponds to the Du’a of blessed Awliya, Allah Almighty accepts his Du’a and fulfills his need.’ Sayyiduna Shaykh ‘Abdul ‘Azeez Dabbaagh رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه would often persuade his disciples to perform Qiyam at that blessed time. (Al-Ibreez, vol. 1, pg. 311, summarised)

That’s why the devotees of Prophet spend this night in the acts of worship offering Nawafil and performing Zikr and at the time of dawn, they make arrangements for Du’a. The blessed house in which the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was born is full of blessings. Hence, Islamic scholars and Muhadiseen pay visit there and acquire their blessings.

A pious person belonging to approximately 826 years ago, ‘Allamah Abul Husain Muhammad Bin Ahmad Jubayr Undalusi رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 614 AH) writes while talking about this blessed house, ‘That sacred place where the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was born in such a blessed moment that Allah Almighty made him a means of mercy for all of the worlds. That sacred place was coated in silver (and it seems) as if it is a small pond of water with a silver surface. What can be said about the sacred soil that Allah Almighty blessed to be the birthplace of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم, who possesses the purest body. This blessed house gets opened in Rabi’-ul-Awwal on Monday because Rabi’-ul-Awwal is the month of the birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and Monday is the day of the birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. People enter this sacred house to attain blessings. This day has always been “Yaum-e-Mashhood” in Makkah Mukarramah, i.e. people gather on this day.’

At another place, he رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه states, ‘The specific place where the blessed birth took place was like a raised platform resembling a small pond to the size of approximately three hand spans. In the middle of it, there is a green color marble piece to the size of a two-third of a hand span that is coated in silver. Including the silver, its length is of one hand span. We rubbed our faces at that sacred place that became the place of birth of the most superior individual that was born on the face of the earth and (that sacred place) touched the noblest of the individuals possessing the purest of the lineage. Moreover, we attained blessings from the sacred birthplace of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and benefited.’ (Tazkirah bil-Ikhbaar ‘an-Ittifaqaat-il-Asfaar, pg. 87, 127)

Those who acquired blessings from this sacred house
Many people acquired blessings from this blessed house. The devotees of Prophet used to visit it, dignify and revere it, perform Zikr there, arrange gatherings of Milad there, mention the virtues and excellences of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم there, recite there Durood and Salam abundantly and would also use to witness the mercy of Allah Almighty.

1       The great Muhaddis, belonging to the era of six centuries ago, ‘Allamah Ibn Naasiruddin Dimashqi رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 842 AH), states, ‘When I performed Hajj in 814 AH, then I paid a visit to this Masjid and beheld the place of the blessed birth. ‘زُرْتُ هٰذَا الْمَكَانَ الشَّرِيْفَ بِحَمْدِ اللّٰەِ تَعَالٰی وَالْمِنَّةِ وَتَبَرَّكْتُ بِهٖ’ i.e. اَلْحَمْدُلِلّٰە! I have beheld this blessed house and attained blessings from it. (Jami’-ul-Aasaar, vol. 2, pg. 752)

2       Shaykh-ul-Muhaddiseen, Imam ‘Abdur Raheem Bin Husain Iraqi رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 806 AH) narrates: The mother of the caliph Haroon-ur-Rasheed, Khaizuraan, bought the house of the blessed birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and made it into a Masjid. People living there before that, state, ‘By Allah Almighty! We faced no calamity in this house nor did we need anything in it. When we left from here, then calamities befell upon us.’ (Al-Mauriid-ul-Hanee, pp. 248)

Commentator of Sahih Bukhari, Sayyiduna Imam Ahmad Bin Muhammad Qastalani رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 923 AH) states, ‘An experienced benefit out of the benefits of holding the Mahfil of Milad on the occasion of the blessed birth is that there remains peace throughout the year. May Allah Almighty shower mercy upon the one who turned the nights of the month of the blessed birth into Eid.’ (Mawahib-ul-Ladunniyyah, vol. 1, pp. 78)

3       Sayyiduna Shah Waliyyullah Muhaddis Dihlvi رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 1176 AH) states, ‘I was present at the blessed place of birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم in Makkah Mu’azzamah at the occasion of Milad Shareef. Everyone was reciting Durood and Salam upon the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and mentioning those out of norm things that were witnessed at the time of his birth along with the events that took place before the declaration of the Prophethood. Thereupon, I witnessed those Anwaar (i.e. spiritual effulgence) that was revealed upon that gathering all at once, and I cannot say whether I witnessed those Anwaar with my physical eyes or spiritual eyes. Allah Almighty knows the best. Anyhow, whatever matter took place, when I pondered upon the Anwaar and Tajalliyat (i.e. spiritual effulgence), then I found out that these Anwaar are being revealed by those angels who join these kinds of spiritual and blessed gatherings. Moreover, I also witnessed that the Anwaar emanating from them were joining the Anwaar of the mercy of Allah Almighty.’ (Fuyood-ul-Haramayn, pg. 26)

Imam Muhammad Bin Jaarullah Ibn Zaheer رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (demise: 986 AH) writes on page no. 285 of his book “Al-Jami’-ul-Lateef” that it is the practice of the people of Makkah that every year on the night of 12th Rabi’-ul-Awwal, the Qadi of Makkah who is Shafi’i goes to visit the blessed place of birth of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم after Salat-ul-Maghrib with a huge crowd of people. Among those people are the Qadi, scholars, and majority of the jurists of the other three branches of Fiqh (i.e. jurisprudence) and the people of the city. They carry chandeliers and big candles in their hands. (Al-Jami’-ul-Lateef, pp. 285, summarised)

Makkay mayn un ki ja`ay wiladat pay Ya Khuda
Phir chashm-e-ashkbar jamana naseeb ho
(Wasail-e-Bakhshish (amended), pp. 90)


Today Islamic Topic: The Perfect Sign of Islamic Faith


The Revered and Renowned Rasool صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم said:

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْەٖ مِن وَالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن
i.e. None of you can become a Momin unless he holds me dearer to his mother, his father, children and all the people.
(Sahih Bukhari, vol. 1, pg. 17, Hadith 15)

Commenting on the above blessed Hadith, ‘Allamah Shamsuddin Safeeri Shaafi’i رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه (whose year of demise was 956 AH) stated in the commentary of Bukhaari: This implies that no one’s faith is perfect unless he holds the Holy Prophet Muhammad Mustafa صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم dearer than his offspring and parents. Therefore, if a person does not hold the Holy Prophet Muhammad Mustafa صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم dearer than his offspring and parents, he has a defect in his faith.
(Sharh Bukhari lis-Safeeri, vol. 1, pg. 405)

‘Allamah Ibn Battal رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه stated: The right of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم over his Ummati is greater than that of offspring, parents and all other people because it is the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم who has saved us from Hell and has blessed us with true guidance, protecting from misguidance. (Sharh Bukhari lis-Safeeri, vol. 1, pg. 405)
How greatly devotion to the Beloved Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم has been emphasized by the Holy Quran can be realized by reading the following surah:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
 تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا
حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠
 Say you (O Beloved), ‘If, your fathers, and your sons, and your brothers, and your wives, and your family, and your acquired wealth, and the trade in which you fear a loss, and the houses of your liking; (all) these things are dearer to you than Allah and His Messenger and fighting in His Path, then wait until Allah sends His command (punishment); and Allah does not guide the transgressors.’
[Kanz-ul-Iman (translation of the Quran)] (Part 10, Surah Al-Taubah, Ayah 24)

Different levels of devotion

1 Imam Shahabuddin Ahmad Bin Muhammad Qastalani رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه stated: The culmination of devotion is that one prefers the wish of his beloved to his own wish. (Irshad-us-Saari, vol. 1, pg. 164, Taht-al-Hadith: 14)

2 Sayyiduna Abu ‘Abdullah Qurashi رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه stated: Real devotion means that the devotee presents his everything to his beloved and does not keep anything with him. (Risalah Qushayriyah, pg. 351)

3 Sayyiduna Abu Bakr Shibli رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه stated: Devotion is called devotion for the reason that it wipes out everything from the heart except for the beloved. (Risalah Qushayriyah, pg. 351)
The above blessed Hadith included in Bukhari mentions one’s father, offspring and all people. In fact, one’s own being is also included in it. Therefore, this Hadith does not mean that one should only have devotion to the Holy Nabi صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم more than his father and offspring but should hold himself dearer than the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. If so hapgens, he will not have perfection in his faith. It is stated in a blessed Hadith that Sayyiduna ‘Umar رَضِىَ اللّٰەُ عَنْهُ humbly said to the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم, ‘Except for my life, I hold you dearer than anything else.’ The Greatest and Noblest Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم said, ‘(Faith will not be perfect) unless I become the dearest to you.’ Sayyiduna ‘Umar رَضِىَ اللّٰەُ عَنْهُ respectfully said, ‘Your Eminence! You have become dearer to me than even my life.’ He صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم said, ‘O ‘Umar! Now (your faith has become perfect).’ (Sahih Bukhari, vol. 4, pg. 283, Hadith 6632; ‘Umda-tul-Qari, vol. 15, pg. 687, Taht-al-Hadith: 6632)

What does devotion require us to do?

Devotion to the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم requires that his Sunnah be acted upon, his religion be helped and his blessed sayings and actions be followed. Whatever he صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم has commanded, should be enthusiastically carried out and whatever he صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم has forbidden, should be avoided.

Mention of devotees

1 One day, Sayyiduna Sawban رَضِىَ اللّٰەُ عَنْهُ came to the blessed court of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم with a different complexion. On his face was a look of grief and gloom. The Greatest and Noblest Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم asked him the reason of anxiety, so he humbly said, ‘O Rasool of Allah! I have neither any pain nor any disease but I get anxious when I do not see you. On the Day of Judgement, even if I enter Paradise, I will get a place and a status, according to my deeds, whereas your status will be highest of all. Your Majesty! How will I be able to get to there? If I do not behold you, what pleasure will I derive from Paradise?’ Comforting him, the following verse of the Holy Quran was revealed:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ

And he who obeys Allah and His Messenger, will be with those upon whom Allah has bestowed favour, i.e. the Prophets, and the (exceptionally) truthful ones, and the martyrs and the virtuous; and what excellent companions they are.
[Kanz-ul-Iman (translation of Quran)] (Tafseer-e-Baghwi, part 5, An-Nisa, Taht-al-Ayah: 69, vol. 1, pg. 358, summarised)
2 Imam Safeeri رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه stated: A woman respectfully said to Sayyidatuna ‘Aishah رَضِىَ اللّٰەُ عَنْهَا, ‘Make me behold the blessed grave of the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم.’ She was shown the blessed grave; she got into such an overwhelming condition that she continued to cry until she passed away. (Sharh Bukhari lis-Safeeri, vol. 1, pg. 408)
3 Imam Maalik رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه was asked about Sayyiduna Ayyub Sakhtiyani رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه, so he replied: When he [i.e. Sayyiduna Ayyub Sakhtiyani] heard anything about the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم, he would weep so much that I felt pity on him. (Ash-Shifa bi-Ta’reef Huqooq-il-Mustafa, vol. 2, pg. 41, summarised)
4 When the Beloved and Blessed Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was mentioned in front of Imam Ibn Shahab Zuhri رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه, he felt such an overwhelming condition that it looked as if neither we knew him nor did he know us. (Ibid, pg. 42, summarised)
5 When the Beloved and Blessed Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was mentioned in the presence of Sayyiduna ‘Amir Bin ‘Abdullah Bin Zubair رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه, he would weep so much that no tear remained in his eyes. (Ibid)

6 When the Beloved and Blessed Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم was mentioned in the presence of Sayyiduna Safwan Bin Sulaym رَحْمَةُ اللّٰەِ عَلَيْه, he would weep for so long that people left him behind. (Ibid, pg. 43, summarised)
An excellent way of having affection for the Holy Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم is to join the Madani environment of Dawat-e-Islami. Affiliated with it, millions of people have developed deep affection and devotion to the Revered and Renowned Rasool صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم.

Sarshaar mujhay ker day aik jaam-e-labalab say
Ta Hashr rahay saaqi aabad yeh may-khanah

May Almighty Allah bless us with living a life full of affection for His Beloved Prophet صَلَّى اللّٰەُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم!