تراویح کا بیان
(1)
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے مہینہ میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اسکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔
(صحیح بخاری کتاب التراویح حدیث 2008صفحہ525)
(2)
حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن الخطاب(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رمضان کے مہینہ میں ایک رات مسجد کی طرف گیا تو لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز پڑھ رہے تھے ایک شخص الگ نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ لوگ کسی اورکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے توحضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا میری رائے یہ ہے کہ میں ان سب کو اگر ایک قاری (امام) کی اقتدا میں جمع کردوں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔ پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے پختہ ارادہ کر لیا اور ان کو حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کی اقتدا میں جمع کردیا پھر جب میںدوسری رات کو ان کے ساتھ گیاتو سب لوگ اپنے قاری ( حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ )کی اقتداءمیں نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے کہا : (یعنی یہ اچھی بدعت ہے ) ۔
(صحیح بخاری کتاب التراویح حدیث 2010صفحہ527)
قارئین کرام ! حدیث پاک سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے حضرت علامہ عینی (رحمتہ اللہ علیہ )اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر وہ کام شرعاً نیک ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ کام شرعاً
بُرا ہوتو وہ بدعتِ قبیحہ
بُری ہے ۔
(عمدة القاری جلد11صفحہ178نعمة الباری شرح بخاری جلد4صفحہ528)
اس لیے ہر بدعت کو گمراہی قرار دینا درست نہیں ہے اور جس حدیث پاک میں یہ فرمایا گیا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ( لے جانیوالی ) ہے ۔
(سنن ابو داﺅد جلد 3 حدیث 1199 صفحہ 440 )
اس سے مراد وہ بُری بدعت ہے جو کسی سنت کے خلاف یا کسی سنت کو مٹانے والی ہو ۔
(3)
حضرت نصر بن شیبان (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں حضر ت ابو مسلمہ بن عبدالرحمن سے ملا تو انہوں نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے رمضان شریف کاذکر کیا اور کہا : یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیے ہیں اور میں نے ا س کے قیام (یعنی تراویح) کو تمہارے لیے مسنون قرار دیا ہے جس نے اس کے روزے رکھے اورایمان و ثواب کے ارادہ سے اس کی راتوں میں قیام کیا تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
(سنن ابن ماجہ جلد1حدیث1317صفحہ 414)
تراویح کے مسائل
(1)
تراویح مرد وعورت سب کے لیے بالا جماع سنت موکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں اس پر خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) نے مداومت (ہمیشگی ) فرمائی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری سنت اورمیرے خلفائے راشدین(رضی اللہ عنہم) کی سنت کو اپنے اوپر لا زم سمجھو ۔
(ترمذی شریف جلد2حدیث573صفحہ339)
اور خود نبی کریم ﷺنے بھی نمازِتراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایاہے لیکن اس پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمت پر تراویح فرض نہ کردی جائے ۔
(2)
تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ)کے عہد مبارک میںبھی تراویح بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں جیساکہ احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے۔
(i)
حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔
(مصنف ابی شیبہ جلد2حدیث7692صفحہ 164)
(ii)
حضرت یزید بن رومان (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے : حضرت عمر بن خطاب(رضی اللہ عنہ) کے دور میں لوگ رمضان المبارک میں (بشمول وتر ) 23رکعت پڑھتے تھے ۔
( موطا امام مالک کتاب الصلوٰة فی رمضان حدیث 5باب 2صفحہ150)
(iii)
حضرت امام ابو عیسٰی ترمذی (رضی اللہ عنہ)نے اپنی سنن میں فرمایا : اکثر اہل علم کا مذہب بیس رکعت تراویح ہے جو کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)اور حضور اکرم ﷺ کے دیگر اصحاب سے مروی ہے اور یہی (کبار تابعین ) سفیان ثوری(رحمتہ اللہ علیہ ) عبداللہ بن مبارک(رحمتہ اللہ علیہ ) ،امام شافعی (رحمتہ اللہ علیہ )اور امام ابو حنیفہ (رحمتہ اللہ علیہ ) کاقول ہے اور امام شافعی (رحمتہ اللہ علیہ )فرماتے ہیں میں نے اسی طرح اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو بیس رکعت (تراویح ) پڑھتے ہو ئے پایا ہے ۔
(ترمذی شریف جلد1حدیث785صفحہ431)
(iv )
حضرت ابو عبدالرحمن سلمی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان المبارک میں قاریوں کوبلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خو د حضرت علی(رضی اللہ عنہ)انہیں وتر پڑھاتے تھے ۔
(السنن الکبریٰ جلد2حدیث4396صفحہ496)
(v)
حضرت عبدالعزیز بن رفیع (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے : حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ)مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے ۔
(مصنف ابی شیبہ جلد2 حدیث 7685 صفحہ 163)
(3)
تراویح کی جماعت سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑدی تو سب گناہ کے مرتکب ہوئے اور اگر چند افراد نے باجماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا ۔
(4)
تراویح کا وقت عشاءکے فرض پڑھنے کے بعد سے صبح صادق تک ہے عشاءکے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو ادا نہ ہوگی ۔
(5)
عشاءکے فرض و وتر کے بعد تراویح پڑھی جاسکتی ہے ۔ (جیسا کہ بعض اوقات 29کی رویت ہلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہوتا ہے ) ۔
(ملخصاًفتاویٰ عالمگیری جلد1صفحہ345۔بہار شریعت جلد1صفحہ688۔ قانون شریعت صفحہ133)
No comments:
Post a Comment