Islamic: Khatam e Nabuwat عقیدہ ختم نبوت کی تعریف

عقیدہ ختم نبوت کی تعریف

(1)

اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت سیدنا محمد مصطفیﷺ پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی۔ اور آپﷺ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپﷺ کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔


اسلام کا یہی عقیدہ  ’’ختم نبوت‘‘  کے نام سے معروف ہے اور سرکارِ دو عالمﷺ کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزوِ ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرتﷺ کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مُفصّل کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
(2)

 عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت و فضلیت

ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوتﷺ سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیینﷺ ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالمﷺ کی آحادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، آنحضرتﷺ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوتﷺ کو قتل کیا جائے۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی کل تعداد 259 ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں ایک جنگ جو حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما اور تابعین رحمۃ ﷲ علیہما کی تعداد بارہ سو ہے جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔ رحمت عالمﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہما ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو آنحضرتﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ ﷲ کے رسولﷺ ہیں؟ حضرت حبیب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی ﷲ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتّٰی کہ حبیب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہما مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔

اب حضرات تابعین رضی ﷲ تعالیٰ عنہما میں سے ایک تابعی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو: ’’حضرت ابو مسلم خولانی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جن کا نام عبدﷲ بن ثوب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہﷺ  (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں۔ جن کے لئے ﷲ تعالیٰﷻ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرما دیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالمﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے۔

 لیکن سرکار دو عالمﷺ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کے آخری ظاہری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن ﷲ تعالیٰﷻ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرما دیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت سی طاری ہو گئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل آ جائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا۔ یمن سے نکل کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا:

’ﷲ تعالیٰﷻ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہﷺ کے اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰﷻ نے ابراہیم خلیل ﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔ “

منصب ختم نبوت کا اعزاز

قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ”رب العالمین“ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس کے لئے ”رحمۃ للعالمین“ قرآن مجید کے لئے ”ذکر للعالمین“ اور بیت اللہ شریف کے لئے ”ھدی للعالمین“ فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپﷺ کے وصف ختم نبوتﷺ کا اختصاص بھی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے، جب آپ ﷺ تشریف لائے تو حق تعالیٰﷻ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنا دیا۔ جس طرح کل کائنات کے لئے اللہ تعالیٰﷻ ”رب“ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرتﷺ ”نبیﷺ“ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپﷺ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
”میں تمام مخلوق کے لئے نبیﷺ بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔“
(مشکوٰۃ صفحہ 512 باب فضائل سید المرسلین‘ مسلم جلد1 صفحہ 199)

تاجدار کائناتﷺ آخری نبیﷺ ہیں، آپﷺ کی امت آخری امت ہے، آپﷺ کا قبلہ آخری قبلہ بیت ﷲ شریف ہے، آپﷺ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپﷺ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو ﷲ تعالیٰﷻ نے پورے کر دیے، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت ﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپﷺ کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپﷺ کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
انا آخر الانبیأ وانتم آخرالامم
(ابن ماجہ صفحہ297)

No comments:

Post a Comment